اپنی تلاش

اپنی تلاش




کتاب اپنی تلاش میں ، قاسم علی شاہ صاحب نے نہایت ہی خوبصورت انداز میں انسان کو اپنے آپ سے ملوانے کی کوشش کی ہے ۔ تا کہ انسان اپنے اصل سے واقف ہو سکے اور جان سکے کہ اس کا اس دنیا میں آنا کا مقصد کیا ہے ، کیونکہ اس دنیا میں ربِ ذوالجلال نے کچھ بھی بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ اگر کچھ بے مقصد یا ناکارہ ہے تو وہ انسان کی اپنی سوچ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا ۔ 

میں کون ہوں ؟
دنیا کی تاریخ میں یہ سوال ہمیشہ سنجیدہ شخص کو ملا ہے ۔ آج تک اللہ تعالٰی نے یہ سوال کسی غیر سنجیدہ شخص کو دیا ہی نہیں ہے ۔
ایک شخص اپنی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے تو وہ شان دار ہے۔ ہم ساری زندگی انتظار کرتے ہیں کہ اگلے وقت میں بہتر کریں گے ، مگر وہ” اگلا “ وقت نہیں آتا ۔” جو کہتا ہے ، میرا کل آئے گا تو میں کروں گا ، اس کا کل کبھی نہیں آتا۔ “ 
کسی کو بھی یقین نہیں کہ آنے والے کل میں زندہ رہے گا یا نہیں۔ یقین صرف یہی ہے کہ اس وقت سانس چل رہی ہے۔ جب کل کا یقین ہی نہیں ہے تو پھر آج کا دن دنیا کا سب سے قیمتی دن ہے کیونکہ یہ دوبارہ نہیں آنا ۔
شیخ سعدی سے کسی نے پوچھا ، آپ کی عمر کتنی ہے ؟ آپ نے فرمایا ، چار سال ۔ اس نے کہا کہ آپ کے تو بال سفید ہوگئے ہیں ۔ فرمانے لگے کہ مجھے” شعور چار سال پہلے ملا ہے “ 
اگر شور مل جائے تو پھر ایک ایسی زندگی جس میں سمت نہیں ہے، سمت آجاتی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی سو سال کی بے سمت زنگی سے ایک دن کی سمت والی زندگی زیادہ بہتر ہے تو غلط نہیں ہوگا ۔
لوگوں کا نہ دیکھئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔ ٹیوی ڈراموں اور فلموں کے ہیرؤوں کے کاموں سے بھی متاثر نہ ہوں ۔ آپ جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اپنے اندر اپنی تلاش کیجئے ۔ اپنے دل کے اندر جھانکئے اور کھو جئے کہ آپ کا رجحان کس طرف ہے۔ حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں ۔” جو تیرا خیال ہے، وہی تیرا حال ہے “ 
شوق کی آگ سے پکی ہوئی ہانڈی بہت ذائقے دار ہوتی ہے ۔ خلیل جبران کہتا ہے کہ وہ روٹی مزیدار نہیں ہوتی جس کے اندر شوق یا محبت نہیں ہوتی ۔

انسان تین چیزوں سے منفرد ہوتا ہے ۔ 
ایک پیشہ ، دوسرا جزبہ ، اور تیسرا کام۔ 

انسان فطرت ، طبیعت ، مزاج ، سوچ ، عادات ، نمو ، اندازوں اور حالات کی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔

اپنی زندگی میں تین دروازے ہمیشہ کھلے رکھیے۔ پہلا دروازہ، کتاب ، دوسرا انسانوں سے سیکھنا ، تیسرا ہمیشہ اپنے حوش وحواس قائم رکھنا اور ان کا صححیی استعمال کرنا ۔

تمام انواع کی تاریخ کے مطابق زندہ وہی رہا جس نے تبدیلی کو قبول کیا ہے ۔ جس نے تبدیلی کو قبول کیا ہے اسے بقا ملی ہے ۔
(ڈارون)
وہ کام تلاش کرو جس سے تم محبت کرتے ہو ؛ تمیں زندگی بھر کام نہیں کرنا پڑے گا ۔
انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد خود انسان ہے ۔ 
اگر تم اپنی ذہانت تلاش کرنا چاہتے ہو تو دوبارہ بچپن میں چلے جاؤ۔کیوں کہ بچپن میں ہم زیادہ  تر اپنی فطری مہارتوں اور ٹیلنٹ کا استعمال کرتے ہیں ۔ تنہائی میں بیٹھ جائیے اور اپنے بچپن کے بارے میں سوچئے کہ جب آپ کسی خوف کے بغیر وہ سب کچھ کر جاتے تھے جو آپ چاہتے تھے ۔ پھر اپنے آپ سے پوچھئے ، اگر مجھے پیسہ کمانے کی فکر نہ ہو اور ناکامی کا خوف نہ ہو تو میں کیا کرنا پسند کروں گا ؟ 
آپ کا جواب آپ کے اندر کی حقیقی خوشی کا سراغ آپ کو دے گا اور یہ آپ کے لئے زندگی کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں اس نتیجہ پہ پہنچا ہوں کہ انسان کی زندگی میں اگر کوئی سمت نہیں ہے تو اس کی زندگی بے معنی ہے ۔ اس کا اس جہان میں ہونا نہ ہونا برابر ہے ۔ 
انسان کے پاس ایک وقت ہی ہے جو بہت قیمتی ہے اور ہم انسان اسی کی قدر کرنا نہیں جانتے ، اور اپنا وقت بے مقصد کاموں میں ضائع کر دیتے ہیں اور آخر میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ 


Review by : zainabbas6.blogspot.com

Follow us on Instagram : https://www.instagram.com/beyond_the_degrees

Follow us on Twitter : https://twitter.com/zain_abbas_1


No comments:

Post a Comment